شاہد حسین بےداغؔ
SHAHID HUSSAIN BAYEDAAGH
follow on facebook and twitter
شاہد حسین
بےداغؔ
ا
س ویب پیج پر مواد مصنف کی ذاتی کوشش اور ذاتی آرا ہیں جملہ حقوق محفوظ ہیں
ایک بات
١-
ایک بات پہ سو بات،سو بات پہ ایک بات
جس بات پہ میں ہوں،وہ بات ہے ایک بات
٢- ہم راز و ہمراہ ہو ایک بات سے اگاہ ہو ؟
جو بات ہے آگاہی کی وہ بات ہے ایک بات
٣- آنکھیں جو تو جکھا کر ہوتے ہو جو بیگانہ
ہر بات پہ میں سوچوں تیری یہ ملاقات
٤- غیروں کی جو باتیں ہیں جانو تو ایک سازش ہے
مانو تو گزارش ہے،بھولنا غیروں کی بات
٥- ہر بات منظور ہے تو مت کر دے تماشائی
سچ ما ن کے جینا تم
بےداغؔ
کی ہے بات
شاہد حسین
بےداغؔ
میں خود میں نہیں تھا
١- میں تجھ ڈھونڈ تا رہا تو کہیں نہیں تھا
یا تو موجود تھا میں خود میں نہیں تھا
٢- لوگ ڈھونڈتے رہے مسجد و مندر میں تجھ
خبر کس کو نہیں تھی کہ تو دلنشیں تھا
٣- تو پاک ہے تو مطہر ہے تو نور مظھر ہے
ہر شے میں مبین ہے ہر شے میں مبین تھا
٤-
بےداغؔ
کس شے کی تجھ غم پڑی ابھی
جب ساتھ نہ تھا کوئی تو رب العالمین تھا
شاہد حسین
بےداغؔ
شاہد حسین
بےداغؔ
صحت نامہ
میری خوشی تھی اول میں جو آخر میں بنی زوال وہ
مجھ ہنسا ہنسا کے رلا دیا میری بربادی کی ہے مثال وہ
نہ ہوا خود کو اچھا نہ خاندان کو لگا سچا
راہ ظلمت میں بھٹکتے ہیں جو میرا ہوگیا ہے حال وہ
آپ خود گئے پہچان جسے کہتے ہیں وبال جان جسے
وہ اور نہیں سیگریٹ ہے کرتی ہے سبھی پامال وہ
جو بھی اسے آزاد ہوا وہ خوش ہوا آباد ہوا
ہر وقت سبب شاد ہوا بےداغؔ ہے خوش حال وہ
شاہد حسین
بےداغؔ
comedy
(late)جن کے کام لیٹ ہوتے ہیں
great وہ لوگ بڑے گریٹ ہوتے ہیں
کبھی مت آنا اسپتال میں خوشبو لگا کر
private ہمارے کام پرائیوٹ ہوتے ہیں
شاہد حسین
بےداغؔ
ہاسٹل کی زندگی
اب تو ہاسٹل میں جینا محال لگتا ہے
یہاں قورمہ بھی با سی دال لگتا ہے
اگر روٹھ جائے کوئی بےسبب ہم سے
اسے منانے میں پورا سال لگتا ہے
الله معاف کرے کفٹریا کی چاۓ
کسی غریب کا سسرال لگتا ہے
دیتے ہیں بستر کی سفید چادریں ہمیں
اپنا کمرہ بھی اسپتال لگتا ہے
کھٹمل ، مچھر اور یہ گرمی لیکن
یہ قلعہ پھر بھی لازوال لگتا ہے
یہاں پر جھیل کا منظر
بےداغؔ
مجھ جنت کا مثال لگتا ہے
شاہد حسین
بےداغؔ
میرا شہر
قاتل بھی ہم ہوگے مقتول بھی ہم ہوگے
گندگی کی خود ہی اور دُھول بھی ہم ہوگے
نہلا کر خون سے اس امن کے شہر کو
دشت کی دنیا میں مقبُول بھی ہم ہوگے
اسلاف ہمارے موجد تھے ۱ُصول امن کے
لیکن اب دیکھیں لا ۱ُصول بھی ہم ہوگے
درس محبت
ہے
ان کے اسوہ حسنہ
میں
ہمیں
ایک بار سوچیں امت رسول بھی ہم ہوگے ؟
کہتے ہیں عجب ترے شہر کے لوگ بےداغؔ
خود جلا کر باغ کو محافظ پھول بھی ہم ہوگے
شاہد حسین
بےداغؔ
شان قلندر
ہر زمانے میں صرف اس کا اثر ہوتا ہے
علم و عمل میں جن کا قرآن اگر ہوتا ہے
ہیں تعلیمات میں جادو انکی ایسی
کہ بندہ اصغر ہو کر بھی اکبر ہوتا ہے
دلوں میں جس نے جلایا تھا محبت کا چراغ
لیکن افسوس اب یہ نفرت کا نذر ہوتا ہے
مثل گھر ہے یہ کائنات محبت ہے ستوں
بغیر ستوں کے کیسے گھر ہوتا ہے
انسانیت ہو جب رنگ و نسل سے بالاتر
فرمودہ ہے اس کا '' دور شر ہوتا ہے ''
درس عرفان ہر ایک کی قسمت میں کہاں
مستفیض صرف اہل نظر حد نظر ہوتا ہے
یہ معجزہ کم ہے کیا اھل دانش کے لئے
جیت کا ہر نتیجہ مست قلندر ہوتا ہے
بھولتی نہیں دنیا ان کو بے داغ
علم عرفان جن کے گھر ہوتا ہے
شاہد حسین
بےداغؔ
(SPECIAL FOR MY BEST FRIEND)
خاص
روشن میری آنکھیں ہیں مگر تیرے سہارے
جب بھی کوئی مشکل ہوتو دل تجھ کو پکارے
خلوت میں بھی ساتھ تیری یادوں نے نبھایا
جتنے بھی لمحے تیرے بغیر میں نے گزارے
آنکھوں میں سے آنسوں کبھی گر نہیں پاتے
دیکھے جب سےمیں نے تیرے سنگ ستارے
الفاظ میں ڈھونڈوں تیری اخلاص کی مٹھاس
پھربھی تیرا مقروس رہوں گا میرے پیارے
قایم رہے جہاں میں تیری اخلاص کی امثال
جوہر تیرے آداب کا رب اور نکھارے
بےداغ خدا کے نعمتوں میں ہے یہ خاص
ہوتے ہیں اس رشتے سے سبھی دور خسارے
شاہد حسین بےداغؔ
مرادیں دل کی بےمراد ہوئیں
جب سے زلفیں تیری آزاد ہوئی
بناتے تھے جو
مٹی کے
قلعے
بستیاں بچپن کی وہ برباد ہوئیں
یوں سنوارتے ہیں مرگ دل سے
خواہشات پھر نہ وہ آباد ہوئیں
شاہد حسین بےداغؔ
سوال نامہ
وہ مسلم تھے ہاں مانند بدن
آج ہم بھی ہیں اپنوں کے رہزن
درد اپنوں کا دل میں نہیں رہا
کیا وہ جو گوروں نے کہا
ایمان کہاں گی وہ جزبہ ایثاری کہاں
مسلمان کہاں گئے جزبہ خوداری کہاں
YOUR VALUABLE FEEDBACK PLEASE !
Name
*
First
Last
Email
*
Comment
*
Submit